رپورٹ کے مطابق، شنگھائی تعاون تنظیم کے فی الحال آٹھ بڑے ارکان بشمول چین، روس، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، بھارت اور پاکستان ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران، منگولیا، بیلاروس اور افغانستان کیساتھ اس تنظیم کا مبصر رکن ہے؛ ایران 2005ء میں تنظیم کا مبصر رکن بن گیا۔
نیز اس تنظیم کے کئی مکالمے کے شراکت دار بشمول جمہوریہ آذربائیجان، جمہوریہ آرمینیا، سلطنت کمبوڈیا، وفاقی جمہوریہ نیپال، جمہوریہ ترکی اور سری لنکا ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی مقاصد، رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کی مضبوطی، سیاست، تجارت، معیشت، تحقیق، ٹیکنالوجی اور ثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم، توانائی اور نقل و حمل کے شعبوں میں ان کے موثر تعاون کا فروغ، سیاحت اور ماحولیاتی تحفظ، خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے اور اس کی ضمانت کیلئے مل کر کام کرنے اور ایک نئے جمہوری، منصفانہ، عقلی اور بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام کے قیام کی طرف آگے بڑھنے کے ہیں
یہ تنظیم؛ باہمی اعتماد، باہمی فائدہ، مساوات، باہمی مشاورت، ثقافتی تنوع کا احترام اور مشترکہ ترقی کی خواہش کے اصولوں کے دائرے میں اپنی اندرونی پالیسی پر عمل پیرا ہے؛ جبکہ اس کی خارجہ پالیسی دوسرے ممالک کی غیر وابستہ ہونے، ان کا نشانہ نہ بنانے اور کھلے پن کے اصولوں کے مطابق ہے۔
ایچ ایس سی سمٹ؛ اس تنظیم کا اعلی ترین فیصلہ ساز ادارہ ہے جو سال میں ایک اجلاس کا انعقاد کرتا ہے اور تنظیم کے تمام اہم امور پر فیصلے اور ہدایات دیتا ہے؛ اس کے مطابق، رکن ممالک کے سربراہ، سال میں ایک بار ملتے ہیں تاکہ تنظیم کی کثیر الجہتی تعاون کی حکمت عملی اور ترجیحی شعبوں پر تبادلہ خیال کیا جائے، اہم معاشی مسائل اور دیگر موجودہ تعاون کو حل کیا جائے، نیز تنظیم کا سالانہ بجٹ منظور کیا جائے؛ ایس سی او کی سرکاری زبانیں روسی اور چینی دونوں ہیں۔
سربراہی اجلاس کے علاوہ پارلیمانی اسپیکروں کی سطح پر ملاقاتوں کیلئے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹریز، وزرائے خارجہ، دفاع، خزانہ، ٹرانسپورٹ، ثقافت، تعلیم اور صحت اور قانون ساز بھی ایس سی او کے کوآرڈینیشن میکانزم کے طور پر کام کرتے ہیں۔
اس کے مطابق، تنظیم کے وزرائے اعظم اور سربراہوں کے دو اہم اجلاس ہوتے ہیں اور مختلف شعبوں میں سالانہ کئی ذیلی میٹنگیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ایران کیجانب سے صدر مملکت، سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور سنئیر نائب صدر، وزرائے اعظم کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔
صرف وہ ممالک جو مستقل ممبر ہیں، کو اجلاسوں میں ووٹ ڈالنے کا حق ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور دوسرے ممالک جو مبصر ممبر ہیں، وہ صرف اجلاسوں میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
رکن ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے 2006ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کی تجارتی کونسل قائم کی۔ یہ کونسل، توانائی، نقل و حمل، ٹیلی کمیونیکیشن اور بینک قرضے کے علاوہ ایس سی او رکن ممالک کے مابین تعاون کی ترجیحات بشمول تعلیم، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال اور زراعت پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
اقتصادی اور تجارتی تعاون کے لحاظ سے شنگھائی تعاون تنظیم کا کل موجودہ اقتصادی حجم تقریبا 20 ٹریلین امریکی ڈالر ہے جو کہ اپنے قیام کے بعد سے 13 گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔ کل غیر ملکی تجارت 6.6 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ 20 سال پہلے کے مقابلے میں اس میں 100 گنا اضافہ ہوا ہے۔
اس علاقائی ادارے کے رکن ممالک کی معیشتیں تقریبا تکمیلی ہیں؛ ایران اور روس تیل اور گیس کے بڑے پروڈیوسر کے طور پر اور چین اور بھارت بڑے توانائی صارفین کے طور پر ایک دوسرے کی معیشتوں کی تکمیل کر سکیں۔
ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک سے خارجہ تجارت کا حجم مختلف ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال کے 7 مہینوں کے دوران، اس کا تجارتی حجم وزن کے لحاظ سے 30 ملین 365 ہزار 787 ٹن اور مالیت کے لحاظ سے 154 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ ایران کا اس تنظیم کے 10 ارکان میں سے چین سے سب سے بڑا تجارتی حجم ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللہیان" نے اس تنظیم کی معاشی صلاحیت سے متعلق کہا کہ شنگھائی ایک بڑی اقتصادی صلاحیت ہے جس میں دنیا کے 2 ارب 600 ملین افراد شامل ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کئی سالوں سے شنگھائی سربراہی اجلاس کا رکن رہا ہے۔
10جون کو شنگھائی تعاون تنظیم کی 20 ویں سالگرہ منائی گئی۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران، ایس سی او بین الاقوامی تعلقات میں سب سے زیادہ بااثر تنظیموں میں سے ایک اور علاقائی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں ایک اہم طاقت بن چکی ہے۔
اس تنظیم نے پچھلے 20 سالوں کے دوران، بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے، غیر سرکاری سفارتکاری کو فروغ دینے اور رکن ممالک کے درمیان اعتماد اور باہمی فائدے، مساوات، مشاورت، مختلف تہذیبوں کے احترام اور مشترکہ ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
چینی اکیڈمی کے انسٹی ٹیوٹ آف روس، مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے صدر "ژون جنگ جی" نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم نے کئی سالوں کے دوران، رکن ممالک جو ثقافت اور نظام کے لحاظ سے متنوع ہیں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا عقیدہ ہے کہ مستقبل میں ایس سی او علاقائی استحکام کو برقرار رکھتی رہے گی، خطے کے ممالک کے مفادات کا تحفظ کرے گی اور انہیں مل کر ترقی دے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ تنظیم دنیا کے 20 فیصد تیل کے ذخائر اور 50 فیصد گیس کے ذخائر کیساتھ آنے والی دہائیوں میں دنیا کے توانائی کے ایک بڑے حصے کو سنبھالنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ